لیکھنی ناول -17-Oct-2023
وہ ہی کہانی پھر سے از قلم ہاشمی ہاشمی قسط نمبر5
بلال گھر آیا تو وارث اس کا انتظارا کر رہا تھا بلال کہاں تھا تو کب سے فون کر رہا ہوں وارث نے غصہ سے پوچھا جبکہ بلال نے کوئی جواب نہیں دیا اور اپنے روم کی طرف چل پڑا وارث اب پریشان ہوا گیا اور بلال کے پیچھے ایا بلال کیا ہوا یار وارث نے پوچھا کچھ نہیں شاہ مجھے ابھی بات نہیں کرنی جاو یہاں سے بلال نے کر اور بیڈ پر لیٹ گیا بلال کیوں پریشان ہے تمہیں پتا ہے نا کہ آج رات کتنی اہم ہے وارث نے کہا ہاں پتا ہے میں تیار ہو بلال نے کہا پریشانی اپنی جگہ لیکن فرض پہلے بلال RD کی وجہ سے پریشان ہے وارث نے پوچھا نہیں یار بس آج کی رات اور کل اس RD کا کام ختم ہو جائے گا بلال نے کہا انشاءاللہ وارث نے کہا لیکن بلال کل کا دن بہت اہم ہے آج رات ہم لڑکیوں کو بچا لیے گئے لیکن نور کے بارے میں کیا سوچا ہے شاہ بلال نے پوچھا اس کی فکر نہیں کرو دعا اور زویا اس کے پاس ہوئی گئی وارث نے کہا لیکن تو پریشان کیوں ہے وارث نے پوچھا پھر کبھی بتاو گا بلال نے ٹلانا چاہا اس کی بات پر شاہ نے گھورا اس کے گھورانے پر بلال بولا یار ایسے نہیں دیکھا بلال نے کہا لیکن مسلسلہ اس کو گھورا رہا تھا بلال نے تنک اگر اس کو ساری بات بتائی اور اپنی ڈول کے الفاظ بھی اس کی بات سن کر شاہ نے کچھ نہیں کہا اس کو نکاح کا دن یاد ایا تھا یار سب ٹھیک ہو جائے گا وارث نے کہا امید ہے مجھے بھی بلال نے افسوس سے کہا
نور یونی میں تھی جب ایک لڑکے اس کے پاس ایا مسں نور آپ کو سر توحید بلا رہے ہے لڑکے نے کہا اس کی بات غصہ کر نور کو غصہ ایا لیکن ضبط کر گئی سر کہاں ہے نور نے پوچھا جی وہ یونی کی بیک سائیڈ پر لڑکے نے کہا اور چلا گیا نور اس جگہ پر گئی وہاں کوئی نہیں تھا نور واپس جانے لگئی جب کیسی نے اس کے منہ پر ھاتھ رکھا اور وہ بے ہوش ہو گئی نور کہاں ہے دعا نے زویا سے پوچھا یار ادھر ہی تھی زویا نے کہا یار وہ کہاں نظر نہیں آرہی ہے چلو دیکھتے ہے اس کو
شاہ اور بلال اس پر RD کے اڈید پر موجود تھے انہوں نے لڑکیوں کو وہاں سے نکالا اور اس جگہ پر موجود تمام مال یعنی (شرب ،مختلف اقسام کے ڈگز ) کو آگ لگا دی اس کے وقت شاہ کے فون پر کال ای اس کو سن کر وارث پریشان ہو گیا اور بلال کو لے کر یونی ائی ________________________& کہاں تھی آپ دونوں ایک کام کہا تھا آپ سے وہ بھی نہیں ہو وارث ان دونوں پر غصہ کر رہا تھا سوری سر مسں نور کلاس میں ہی تھی پھر اچانک ہی غائب ہو گئی دعا نے کہا شاہ اس سے پہلے اور کچھ کہتے بلال بولا ٹھیک ہے جائے آپ شاہ یہ وقت غصہ کرنا کا نہیں ہے کنٹرول کر بلال نے کہا ٹھیک ہے پلین بی اس ہی وقت شروع کرتے ہے RD یہ تم نے اچھا نہیں کیا وارث نے غصہ سے کہا
نور کو ہوش ایا تو خود کو ایک کمرے میں پایا کچھ وقت لگا پھر سب یاد ایا اللہ پھر کیسی نے مجھے اغوہ کر لیا ہے نور نے کہا اور کمرے میں ٹہلے لگئی اس وقت کمرے کا درواذ کھولا اور RD اندر ایا نور اس کو دیکھا کر پریشان ہو گئی سر آپ نے مجھے اغوہ کیا ہے نور نے پوچھا ہاں میری چڑیا سر توحید یعنی RD نے کہا نور تم مجھے پہلے ہی دن پسند آئ تھی آہستہ آہستہ تم نے مجھے اپنا دیوانہ بنا لیا ہے توحید نے کہا سر دیکھا میں آپ نے بہت عزت کرتی تھی لیکن آپ عزت کے قابل نہیں ہے نور نے غصہ سے کہا اوووو رسی جل گئی بل نہیں گیا نور یہ نہیں بھولوں تم اس وقت میرے بیڈ روم میں موجود ہو توحید نے کمنیگی سے کہا اس کی بات پر نور مسکرائ تم نے مجھے اگر ھاتھ بھی لگیا تو میں تمہارا منہ توڑا دو گئی اس کی بات پر توحید مسکرایا اور ایک گہری نظر سے نور کو دیکھا اور اس کی طرف ایا اووو تم نازک سی کیا کرلو گئی بےبی توحید نے کہا اور اس پر جھکا نور نے ایک ٹھپر اس کے منہ پر مار اس کی حرکت پر توحید کو غصہ ایا اور اس کے نور کے بالوں سے پکرا اور ایک ٹھپر اس کے منہ پر مار اور نور نیچے گرئی اور سر پر بیڈ کا کونا لگا اور ماتھے سے خون نکالنا شروع ہوگیا گالی تیری ہمت کیسے ہوئی RD کو مارنے کی توحید نے غصہ سے کہا اور نور کو پکرا کر بیڈ پر پیھکا اور اپنی شرٹ کے اتاری اور نور کے پاس ایا نور مسلسلہ مزاحمت کررہی تھی اور زبان پر اللہ کا نام تھا اس ہی وقت شاہ اندر ایا RD شاہ کو دیکھا کر پریشان ہوا تم جبکہ وہ نور پر جھکا تھا وارث غصہ سے توحید کے پاس ایا اور اس کو مارانا شروع ہو گیا اور نور پریشان سی شاہ کو دیکھا رہی تھی جو اس وقت آرمی یونفارم میں تھا نور نے جلدی سے اپنا دوپٹہ سر پر لیا جو کہ توحید سے لڑئی کے وقت زمیں پر گر گیا تھا نور کا سر چکرا رہا تھا اس ہی وقت بلال اندر ایا شاہ چھوڑ اس کو مر جائے تھا بلال نے کہا بلال اس کی ہمت کیسے ہوئی نور کو ھاتھ لگنے کی شاہ نے کہا اور نور کے پاس ایا نور تم ٹھیک ہو شاہ نے پوچھا دور ہو کر بات کرتے یہ سب کیا ہے نور نے پوچھا ٹھیک ہے لیکن پہلے چلو یہاں سے شاہ نے کہا اور نور کا ھاتھ پکرا لیکن نور اس ہی وقت بے ہوش ہو گئی نور نور شاہ نے اس کے گال پر ھاتھ رکھا کر کہا
ڈاکٹر باہر آیا ان کے سر پر بہت چوٹ ائی ہے اس کی وجہ سے یہ بے ہوش ہوئی ہے ہوش انے میں کچھ وقت لگا گا لیکن کچھ دن سر میں درد رہے گا ڈاکٹر نے کہا اور چلا گیا نور کو ہوش ایا تو خود کو ہپستال کے روم میں پایا سامنے شاہ بیٹھ کر اس کو دیکھا رہا تھا اس کو دیکھا کر نور اٹھا کر بیٹھ گئی یہ سب کیا تھا نور نے پوچھا اب آپ کیسی ہے نور وارث نے اس کے سوال کو نظراندرذ کیا یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے مسٹر آفیسر نور نے کہا توحید ایک برا انسان تھا وہ یونی سے لڑکیوں کو غائب کروتا اور ان کو بیچ دیتا اور اس کے علاوہ وہ اور بھی بہت سے ایسے کام کرتا تھا جو اس ملک کے لیے نقصان دے ہے میں بہت دیر سے اس ے پیچھے تھا اللہ نے آج مجھے کامیاب کیا ہے وارث نے کہا نور اس کی بات غور سے سن رہی تھی پھر کچھ یاد ایا میں یہاں کب سے ہو نور نے پوچھا کل سے وارث نے جواب دیا کیونکہ پوری رات نور بے ہوش رہی تھی آپ نے بابا کو بتایا نور نے پریشان ہو کر پوچھا اس کی بات پر شاہ بھی پریشان ہو گیا کل اتنا سب ہو گیا تھا کہ عبداللہ صاحب کا خیال ہی نہیں آیا اچھا آپ پریشان نہیں ہو میں فون کرتا ہو وارث نے کہا نہیں مجھے گھر جانا ہے پلیز نور نے کہا ابھی آپ کی طعبیت ٹھیک نہیں ہے ڈاکٹر چھٹی نہیں دے گا وارث نے کہا پلیز مجھے گھر جانا ہے میرے بابا پریشان ہو رہے ہو گئے نور نے کہا شاہ نور کو اس کے گھر لایا نور گھر ائی کو عبداللہ صاحب کہی نظر نہیں ائے بابا بابا بابا نور آواز دینے لگئی نور روم میں آئ تو اس کی نظر اپنے بابا پر پڑی جو بے ہوش تھے وہ جلدی سے ان کے پاس آئ بابا بابا آنکھیں کھولے بابا۔۔۔ وہ دونوں اس وقت ہپستال کے ایمرجیسی روم کے باہر پریشان کھڑے تھے اس ہی وقت ڈاکٹر باہر آیا ھاٹ اٹیک ہو ہے حالت کافی خراب ہے آپ بس دعا کرے ڈاکٹر نے کہا اور چلا گیا وارث نے نور کو دیکھا جو بے یقین سی کھڑی تھی کچھ وقت بعد نرس باہر آئ نور کون ہے نرس نے پوچھا جی میں نور نے کہا آپ اندر ائے وہ آپ سے بات کرنا چاہتا ہے لیکن خیال رہے گا ان کی طعبیت خراب ہے نرس نے کہا نور ہاں میں سر ہلاتی اندر چلی گئی نور اندر ائی تو اس نے اپنے بابا کو دیکھا جو ایک ہی دن میں کمزور لگ رہے تھے نور کے دل میں کچھ ہوا بابا کیسی طبعیت ہے آپ کی نور نے کہا اور ان کے سینے پر اپنا سر رکھا نور میرا بچا کہاں تھی تم عبداللہ صاحب کو بولے میں مسائلہ ہو رہا تھا ان کی بات سن کر نور پریشان ہو اور پھر ساری بات بتائی( نکاح والی بھی ) نور بچا انتا سب ہو گیا عبداللہ صاحب نے افسوس سے کہا بابا میں ٹھیک ہو نور جانتی تھی وہ بات سن کر پریشان ہو گئے لیکن وہ جھوٹ بھی نہیں بول سکتی تھی نور وہ بچا کہاں ہے عبداللہ صاحب نے وارث کا پوچھا بابا باہر ہی ہے نور نے پریشان ہوتے ہوے کہا اچھا تم جاو اور اس کو اندر بیجو عبداللہ صاحب نے کہا کیوں بابا نور نے پوچھا مجھے بات کرنی ہے بچے جاو عبداللہ صاحب نے کہا نور باہر آئ مسٹر آفیسر بابا آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہے نور نے وارث سے کہا اس کی بات پر وارث نے سر ہاں میں ہلایا اور اندر ایا اسلام و علیکم انکل کیسی طبعیت ہے اب آپ کی وارث نے کہا اس کی بات پر عبداللہ صاحب نے گہرا سانس لیا نام کیا ہے تمہارا عبداللہ صاحب نے پوچھا وارث علی شاہ جواب ایا نور باہر پریشان تھی بہت دیر ہو گئی لیکن وارث باہر نہیں آیا تو نور خود اندر ائی بابا نور نے عبداللہ صاحب کو آواز دی نور بچے میرے پاس او عبداللہ صاحب نے کہا تو نور ان کے پاس ائی نور ایک وعدہ کرو مجھے سے یہ نکاح جیسے بھی ہوا ہے یہ انسان شوہر ہے اب تمہارا وعدہ کرو تم اس نکاح کو نہبھو گئی عبداللہ صاحب نے کہا بابا آپ ٹھیک ہوں جائے ہم پھر اس بارے میں بات کرے گئے نور کو عبداللہ صاحب کی بات برئی لگئی اس نے بات کو ٹالنا چاہا نہیں نور وعدہ کرو یہ میری آخری خواہش ہے عبداللہ صاحب نے کہا بابا کیسی باتے کر رہے ہے آپ نور تڑپ کر بولی نور وعدہ کرو عبداللہ صاحب نے پھر کہا اور آخرکار نور کو ہار مانئی پڑئی ٹھیک ھے بابا نور نے کہا وارث بچا ادھر او عبداللہ صاحب نے وارث کو بلایا جو کچھ دور کھڑا تھا اور ان کے پاس ایا عبداللہ نے نور کا کا ھاتھ وارث کے ھاتھ میں دیے اور کہا میری بیٹی کا خیال رکھا اور آنکھیں بند کر لی نور کو انہوئی کا احساس ہوا بابا بابا ڈاکٹر ڈاکٹر ڈاکٹر ڈاکٹر. اندر ایا آپ لوگوں باہر جائے ڈاکٹر نے کہا کچھ وقت بعد ڈاکٹر باہر آیا ائی ایم سوری ڈاکٹر نے کہا اور نور کو لگ اب سانس نہیں آے گئی شاہ پریشان سا کبھی ڈاکٹر کو دیکھتا تو کبھی نور کو اور اس ہی وقت نور بے ہوش ہو گئی
توحید کرسی پر بے ہوش تھا جب بلال اندر ائے اور پانی اس پر ڈالا توحید نے آنکھیں کھولی خود کو ایک اندھیر کمرے میں پایا کون ہو تم توحید نے پوچھا وہ اندھیر کی وجہ سے بلال کو دیکھا نہیں سکتا تھا اچھا سوال ہے کون ہو میں بلال نے کہا اور توحید کے پاس ایا آزان تم توحید کو شاک لگ نہیں آزان نہیں کپیٹن بلال جواب ایا میں نے تم پر بھروسہ کیا اور تم نے کیا کیا توحید نے اب صدمہ سے کہا تمہیں کچھ بتانا چاھتے ہو تمہارا دس گودام کو میں نے آگ لگا دی ہے اور وہ لڑکیوں بھی اپنے اپنے گھر چلی گئی ہے بلاسٹ کے لیے تم نے جن کو کہا تھا وہ جنہم میں ہے اور سیاسی پارٹی کا سربراہ وہ ہی جنہم میں جاچوکا ہے اور اب تمہاری باری ہے بلال نے. کہا اس کی بات پر اب توحید کو ڈدر لگ رہا تھا دیکھوں تمہیں کیا چاہے مجھے بتاو میں دو گا بس مجھے جانے دو توحید.نے کہا اس کی بات. پر بلال مسکرایا مجھے تمہاری موت چاہے تم نے اس پاک زمیں کو گندہ کرنے کی کوشسش کی ہے اب تم جنہم میں جاو گئے تم نے اس ھاتھ سے ورذی کو ھاتھ لگیا تھا بلال نے توحید کا ہاتھ موڈر تو اس کی چیخے نکالی ان آنکھیں سے میری ڈول پر نظر رکھی تھی بلال نے اس کی آنکھوں پر مکار مارا ابھی اس کو وہ اور چارچر کرتا اس ہی وقت اس کا فون بجا شاہ کی کال تھی سو اس نے کال پک کی اگے جو خبر ملی سن کر بلال پریشان ہو
دو دن گزرا گئے ان دو دنوں میں نور کی آنکھیں خشک نہیں ہوئی اور باہر بادل بھی برستے رہے دو دن سے شاہ اس کے پاس تھا آج وہ اس سے بات کرنے کا ارادہ رکھتا تھا نور مجھے آپ سے بات کرنی ہے وارث اس کے روم میں موجود تھا جی نور بولی نور. مجھے آپ کے بابا کا افسوس ہے لیکن اب آپ تیاری کر لے ہمیں آج گھر. جانا ہے وارث نے کہا اس کی بات پر نور نے پریشان ہوتے وارث کو دیکھا کیا کچھ نہیں تھا اس کی آنکھوں میں دکھ ،ردر ،غم ،تکلیف میں آج یہاں رہنا چاہتی ہوں پلیز نور نے کہا وہ منع کرنا چاہتا تھا لیکن کچھ سوچ کر چپ کر گیا ٹھیک ہے میں دوسرے روم میں ہو کچھ چاہے ہو گا تو بتا دینا وارث نے کہا اور چلا گیا اللہ یہ سب کیا تھا مجھے اس شخص کو شوہر تسلم کرنا ہو گا اس کے گھر جانا ہو گا بابا یہ آپ نے مجھے کس آزمائش میں ڈال دیا ہے نور نے روتے ہوئے کہا ساری رات وہ سوئی نہیں روتی رہی لیکن خود کو مبضوظ کیا جو بھی تھا اب اپنے بابا کا وعدہ پورا کرنا تھا چلے وارث کی آواز پر ہوش میں ائی جی نور نے کہا اور وارث نے اس کا سامان لیا کر گاڑھی میں رکھا نور صحن میں کھڑی ہوئی ایک نظر اس گھر کو دیکھا جو اس کے بابا ماں کا تھا سب کچھ یاد ایا ماں کی مامتہ بابا کا پیار ایک آنسو نور کی آنکھیں سے گرا نور کا دل کر رہا تھا کہ وہ وارث سے کہ مجھے کہی نہیں جانا لیکن آہ اپنے بابا کا وعدہ گاڑھی میں وارث نے اس سے بات کرنے کی کوشسش کی لیکن نور نے اس طرح ایکٹ کیا کہ کچھ سنا ہی نہ ہو وارث اس کی غائب دماغی نوٹ کر رہا تھا اس لیے چپ رہو گیا
لو بھئی نور کی رخصتی ہو گئی ہے